''Hai - Ku (Jp) an unrhymed verse form of Japanse orgin having three lines containing usu - five , seven , five syllables respectively, also a poem in this form usu - having a seasonal reference" P-560 11th edition
اس تعریف سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ہائیکو حسبِ معمول (پانچ ۔سات۔ پانچ) والی ترتیب کے مطابق صحیح ہے اوریہی وہ تعریف ہے جسے اُردوکے بڑے نقّاد کلیم الدّین احمد کے علاوہ پروفیسر گیا ن چند جین، ڈاکٹرعنوان چشتی اورڈاکٹرشیخ عقیل احمد وغیرہ نے بھی تسلیم کیاہے جبکہ درس ِبلاغت میں شمیم احمد صاحب نے ان کی ترتیب چار۔آٹھ ۔پانچ بتائی ہے جسے اہلِ قلم صحیح نہیں مانتے ۔
ہائیکوکےلئے موضوع کی کوئی قید نہیں ۔دُنیاکی بے ثباتی‘فلسفہ ‘عشق ‘سیاست ‘سماج ‘معاشرت ‘اخلاق ‘تہذیب غرض دُنیاکے تمام سنجیدہ اور غیرسنجیدہ موضوعات و مسائل پرکہی جاسکتی ہے ۔تاہم بااعتبار موضوع ہائیکوکادامن بے حد وسیع ہے لیکن حسن و عشق اورمناظرِفطرت اس کے خاص موضوعات ہیں۔ اُردومیں ہائیکوکی روایت کاثبوت رسالہ ”ساقی “ کے جاپانی نمبرسے ملتاہے جو۱۹۳۶ءمیں شائع ہواتھا۔اس میںجاپان کی بعض اصنافِ سُخن کے تعارف کے ساتھ اُن کے ترجمے بھی درج تھے ۔ بیس سال بعد ۱۹۵۶ءمیں رسالہ ”معاصر“ پٹنہ میں کلیم الدین احمد کاایک مضمون ”جغرافیہ وجود “ شائع ہواتھا جس میں اُنہوں نے جاپانی اصناف ِسُخن کامفصّل تعارف اور ترجمے بھی پیش کئے تھے۔علاوہ ازیں وزیرآغانے اپنی کتاب”معنی اورتناظر“ اور ڈاکٹر عنوان چشتی نے اپنے ایک مضمون ’اُردوشاعری میں ہیئت کے تجربے ‘میں ہائیکو پرسرسری نظرڈالی ہے۔
اُردومیں ہائیکونگاری کوپروان چڑھانے میں اوراق ‘ایوانِ اُردو‘ شاعر،کتا ب نما اورتمثیلِ نوجیسے معیاری رسالوں کااہم رول ہے۔اُردوکے بہت سے چھوٹے بڑے جدیدشعراءنے ہائیکوپرطبع آزمائی کی ہے وہ چاہے سارک مما لک سے تعلق رکھتے ہوں یاپھراُردوکی نئی بستیوں سے۔خلیجی ممالک میں بھی اس پر طبع آزمائی کی جا رہی ہے۔لیکن اس میں شک نہیں کہ بہت سے شعراءنے ہائیکوکی مخصوص ہیئت پرعمل نہیںکر کے اس کے بنیا دی ڈھا نچے کو مسخ کرنے کی کو شش کی ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہواکہ بہت سے ناقدین اورقارئین بھی ہائیکوسے متنفرہونے لگے۔اُردومیںاس کی مثالیں بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے ملناشروع ہوجاتی ہیں مگراس کے باوجودہا ئیکو کواُردو ادب میں وہ مقام نہ مل سکا جوملناچاہئے تھا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہندوستانی ادب میں پہلے سے ہی تین مصرعوں کی ایک مقبول صنفِ سُخن ”ماہیا“شمالی ہندوستان میں موجود تھی۔ جو نہ صرف پنجابی ،ہندی بلکہ اردو میںبھی رائج اور مقبول تھی اوراس پر طرئہ یہ کہ ماہیا کیلئے لازمی ہے کہ اس کا پہلااور تیسرا مصرعہ ہم قافیہ ہو اس سے ماہئیے کی غنائیت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ہم غزل کی غنائیت زدہ ذہنیت کی وجہ سے اس صنف کو کہ جس میں قافیہ کا التزام ضروری نہیں ہے ۔پوری طرح سے قبول نہ کر پائے ۔
اُردومیں جن شعراءنے ہائیکوکہے ہیں ان میں محمد علوی ‘انورفروز ‘تنویرپھول‘عطاعابدی‘ نصیراحمدناصر‘ اقبال حیدروغیرہ کے اسماءاہم ہیں۔
راقم الحروف نے بھی کئی ہائیکوکہہ کرمشاعروںمیں دادوتحسین حاصل کی ہے۔راقم الحروف کا شائع شدہ شعری مجموعہ” دُور اُفق سے پا ر“ جس میں بطور خاص ہائیکو شائع کئے ہیں۔ یہ نہ صرف یہ کہ میراپہلاشعری مجموعہ ہے بلکہ سرزمین ِپونچھ سے شائع ہونے والا وہ پہلامجموعہ ہے جس میں ہائیکو کی صنف شامل ہے ۔ہائیکو کے علاوہ اس مجموعہ میں چندغزلیں اورنثری نظمیں بھی شامل ہیں۔ اُردو کے چند نا مور ہا ئیکو نگا روں کے چند ہا ئیکو بطور نمونہ پیش ِ خدمت ہیں۔
چاند چھپ کے تکتا ہے/رات با لکو نی میں /بے لبا س بیٹھی ہے۔۔۔۔۔(نصیر احمد نا صر)
طرز ِ گلشن سیکھ/کہتی ہے ہر نو ک ِ خار/جینے کا فن سیکھ۔۔۔۔۔۔(عطا عابدی)
دانہ گندم کا /کھا کر جنت سے نکلے /آدم اور حوا۔۔۔۔۔۔۔(تنویر پھول)
خواب تھا وہ منظر/ ہم نے گو ہر ما نگے تھے /ملے ہیں کیوں پتھر۔۔۔۔۔۔(انوار فیروز)
دن بھر اُڑان سے /میں گھبراکے دھوبیٹھا/ہاتھ اپنی جان سے........(ع۔ع۔عارف)
ان تمام ہا ئیکوز میں معنی آفرینی ‘مقصدیت ‘روانی اور سلاست کے سبھی فنی عناصرموجودہیں۔یہی نہیں بل کہ حسنِ الفاظ کے ساتھ ساتھ شعری آداب کا بھی لحاظ رکھاہے ۔مختصر اً یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیسویں صدی میں پیدا ہونے والی اس کم عمر صنف شعر نے با ضابطہ آ غاز سے لے کر عہد حاضر تک ترقی کے جو مراحل طے کئے ہیںوہ اُردو ادب کے لئے سنگ ِ میل کی حیثیت ہیں۔ فنی وتکنیکی نقطہ نظر سے دیکھا جا ئے تو بیسویں صدی بڑی قیا مت خیز صدی رہی ہے۔ اس صدی نے جہا ں تما م سائنسی علو م کی مختلف منا زل کوبڑی تیزی سے طے کیا ہے وہیں نئی نئی ایجا دات سے علمی وادبی دنیا میں بھی عظیم انقلاب بر پا کئے ہیں۔ اُردو ادب بھی ان ایجا دات و انقلا با ت سے متا ثر ہوئے بغیر نہیں رہا ۔اور اس تیز رفتا ری کے عالم میںہا ئیکو جیسی مختصر ترین صنف ِ شعر نے تو بلخصوص تما م قا ر ئین کی توجہ اپنی جا نب مبذول کرانے میں جو کا میا بی حاصل کی ہے۔وہ کسی سے پو شیدہ نہیں ۔
No comments:
Post a Comment